علامہ اقبال، جسے مفکرِ پاکستان (مفکرِ پاکستان) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، برطانوی ہندوستان میں ایک فلسفی، شاعر، اور سیاست دان تھے جنھیں وسیع پیمانے پر تحریکِ پاکستان کی تحریک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری جو بنیادی طور پر فارسی اور اردو میں لکھی گئی ہے، ان کی گہری فلسفیانہ بصیرت اور شاعرانہ کمال کی عکاسی کرتی ہے۔ علامہ اقبال سے منسوب چند قابل ذکر اقتباسات یہ ہیں:
"Raise yourself so high that before every destiny,
Tell me, tell me, tell me, what is your pleasure?"
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود بتائے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟"
"Raise yourself to such heights that before every decree of destiny
God Himself asks the individual, 'Tell me, what is your desire?'
خود کو ایسی بلندیوں تک پہنچا دو کہ تقدیر کے ہر حکم سے پہلے
خدا خود فرد سے پوچھتا ہے، 'بتاؤ، تمہاری کیا خواہش ہے؟'
"What should I do if I want to be myself?
I am also myself, so what should I do to be myself?"
"خودی میں خوامخواہ میرے ہو جاؤں میں کیا؟
میں خود بھی ہوں، تو خود بھی ہو جاؤں میں کیا؟"
“Should I be lost in the self, or should the self become me?
If I am myself and you are yourself, why should I be you?
کیا مجھے خودی میں کھو جانا چاہیے، یا خودی مجھے بن جانا چاہیے؟
اگر میں خود ہوں اور آپ خود ہیں تو میں آپ کیوں بنوں؟
"Say a thousand voices so that each voice is breathless,
My dreams turned out to be a lot, but still less.
"ہزاروں آوازیں کہیں کہ ہر آواز پر دم نکلے،
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے۔
"A thousand longings, each one so intense that each longing takes my breath away,
I had so many aspirations, yet somehow they felt inadequate."
"Not a lack of fate, but a cause gone awry,
This sky, this dust, this flower, this chimney has become."
"It's not a lack of fate, it's baseless,
This sky, this earth, this flower, this garden, have lost their reason."
"Self is the blade of entanglement, the chain of every dreamer's self,
In every dream, see the story of yourself, the meaning of yourself, the night of yourself."
Self is a double-edged sword, every dream is a chain of self
Every dream tells a story of self. Understand the meaning of self, the nights of self."
"ہزار خواہشیں، ہر ایک اتنی شدید کہ ہر خواہش میری سانسیں چھین لیتی ہے،
میرے اندر بہت سی امنگیں پیدا ہوئیں، پھر بھی کسی نہ کسی طرح وہ ناکافی محسوس ہوئیں۔"
"تقدیر کی کمی نہیں، بے وجہ ہو گئی،
یہ آسمان، یہ خاک، یہ پھول، یہ چمن ہو گئی ہے۔"
"یہ تقدیر کی کمی نہیں ہے، یہ بے بنیاد ہے،
یہ آسمان، یہ زمین، یہ پھول، یہ باغ، اپنی عقل کھو چکے ہیں۔"
"خودی ہے تیغِ فسوں، ہر خوابیدہ خودی کا زنجیر،
ہر خواب میں خود کی کہانی، خود کا مطلب تو دیکھو، خود کی راتان۔"
خودی دو دھاری تلوار ہے ہر خواب خودی کی زنجیر ہے
ہر خواب خودی کی داستان بیان کرتا ہے۔ خودی کے معنی، خودی کی راتوں کو سمجھو۔"
یہ اقتباسات علامہ اقبال کے خود شناسی، روحانی بیداری اور اعلیٰ نظریات کے حصول پر زور دینے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری دنیا بھر کے قارئین کے لیے الہام اور فکر کا باعث بنی ہوئی ہے۔
These passages reflect Allama Iqbal's emphasis on self-realization, spiritual awakening and pursuit of higher ideals. His poetry continues to be a source of inspiration and thought for readers around the world.